توانائی بحران کے خلاف کوئٹہ میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا
حکومت اور دھرنا مظاہرین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔ کسانوں کے مطالبات وفاق تک پہنچانے کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پیر کے دن دارالحکومت اسلام آباد کا خصوصی دورہ بھی کیا۔
کوئٹہ کی اہم اور حساس شاہراہ زرغون روڈ پر جاری احتجاجی دھرنے میں کوئٹہ سمیت صوبے بھر سے آئے ہوئے کسان شریک ہیں۔ اسی روڈ پر وزیراعلیٰ ہاوس، گورنر ہاوس اور بلوچستان ہائی کورٹ سمیت دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام کے دفاتر بھی واقع ہیں۔
بلوچستان میں محکمہ زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کا کل رقبہ 8 کروڑ 58 لاکھ ایکڑ ہے، جس میں سالانہ تقریبا 28 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مختلف فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔
بلوچستان کے کسان اور چھوٹے کاشتکار کیا چاہتے ہیں؟
بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنماء، غلام رسول کہتے ہیں کہ ترقی کی دعویدار موجودہ حکومت نے صوبے کے زرعی شعبے کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”بلوچستان میں صرف دو اضلاع میں نہری نظام موجود ہے، باقی تمام 36 اضلاع میں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ٹیوب ویلز ہیں۔ صوبے کے تمام 29 ہزار ٹیوب ویلوں کو اس وقت حکومت 24 گھنٹوں میں صرف 3 گھنٹے بجلی مہیا کر رہی ہے۔ بجلی کی عدم دستیابی کے باعث کھیتوں کو پانی نہیں مل پا رہا ہے۔ فصلیں تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت صرف فرضی دعوؤں سے عوام کی انکھوں میں دھول جھونک رہی ہے ۔”