بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کا لیڈر رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے نکالو، مجھے نکالو۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو ان کا رونا دھونا جاری رہے گا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کا لیڈر رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے نکالو، مجھے نکالو، یہ انگلی کٹا کر ایک رات جیل میں گزار کر پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ بہادر خان صاحب جیل میں تنگ آچکے ہیں، اس کا رونا دھونا تھا، یہ حقیقی آزادی نہیں، تحریک آزادی نہیں، لیڈر کا رونا دھونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر میں صرف اپنا اور چیئرمین کا رونا دھونا تھا، بطور قائد حزب اختلاف اس کی ذمے داری عوامی مسائل پر بات کرنا تھی لیکن اس پر بات ہی نہیں کی گئی، اپوزیشن لیڈر نے یہ ذمے داری پوری نہیں کی، اگر اپوزیشن صرف اپنا ہی رونا دھونا کرتی رہے گی تو قومی مسائل کا حل نہیں نکلے گا، اپوزیشن اپنے ایشو کو ترجیح دیتی ہے، قومی ایشو کو ترجیح نہیں دیتی۔
پی پی پی چیئرمین نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے غیر سنجیدہ رویے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں، بقول ان کے آئین کی بالا دستی، حقیقی آزادی اور قانون کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں، اگر بات کرنی تو صرف افواج اور اسٹیبلشمنٹ سے کرنی ہے، یہ نہ جمہوریت میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ آئین کی بالادستی میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ اپنے ذاتی ایشو میں دلچسپی رکھتے ہیں، جمہوریت کو مضبوط کرنا نہیں چاہتے، ذاتی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ جانتے ہیں کس کا پاؤں پکڑنا پڑے گا، سیاستدانوں سے بات کرنے سے انکار کر رہے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں مداخلت نہ کرو، لیکن انہی کے پاؤں پکڑ کر زبردستی مداخلت کروارہے ہیں، یہ پاکستان کے عوام، جمہوریت اور پارلیمان کے ساتھ منافقت ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ خیبر پختونخوا کا قصور کیا ہے، اس مرتبہ پھر ایسا چیف منسٹر دلا دیا، خیبر پختونخوا کو جو تحفہ دیا ہے، ڈرامے باز ہے، یہ سمجھتے ہیں وزیراعلیٰ انہوں نے بنایا ہے، اصل میں کسی اور نے بنایا ہے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ہر روز ہوائی فائرنگ کرتا ہے، گورنر کے خلاف بیان دو، خان کو بھی خوش رکھنا ہے اور سی ایم بھی رہنا ہے۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ اگر یہ 9 مئی کی معافی مانگنے کو تیار نہیں تو پھر ان کا رونا دھونا جاری رہے گا، بھگتنا پڑے گا، پرامن احتجاج کرنا ان کا جمہوری حق ہے، دہشت گردی کرنا ان کا حق نہیں، جمہوری انداز سے سیاست کریں، جمہوریت میں احتجاج کا حق ہے، اداروں پر حملے کا حق نہیں، شہداء کی یادگار پر حملے کا حق کسی کے پاس نہیں اور نہ ہونا چاہیے، اس قسم کی ہر سازش ہمیشہ ناکام رہے گی۔
بلال بھٹو نے مزید کہا کہ ان کے ملٹری ونگ کو دور ہونا چاہیے، سیاسی لوگوں کو آگے لانا چاہیے، اگر مذمت اور توبہ کیلئے تیار نہیں تو مطلب وہ قبول کررہے ہیں، ان کا لیڈر ایک رات میں جیل سے گھبرا گیا، ان کے لیڈر نے ملٹری اداروں، شہداء کی یادگار پر حملے کا کہا۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو کی شہادت پر کارکنوں نے خود کو جلایا، حملہ نہیں کیا، شہید بی بی کی شہادت پر چاروں صوبوں میں کارکنوں کا احتجاج تھا، شہید بی بی کی شہادت پر جلاؤ گھیراؤ ہوا، لیکن ملٹری تنصیبات اور شہداء کی یادگار پر حملہ نہیں ہوا، ہم زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، محب وطن لوگ ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ مسائل کا حل مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں، صدر نے حکومت کو معاشی مسائل کا حل نکالنے کا کہا، بجٹ میں اپوزیشن کا اِن پُٹ ہونا چاہیے، اپوزیشن بجٹ اور پارلیمان میں مثبت کردار ادا کرے، تیسری بار صوبے میں حکومت چلانے کی بھی ذمے داری ادا کرے، قائدحزب اختلاف کی ایک گھنٹے کی تقریر میں اپنا رونا دھونا تھا، اپوزیشن مسائل کی نشاندہی کرے، حل کی پالیسی دے۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ صدر زرداری نے تقریر میں صحت اور تعلیم کی پالیسی پر بات کی، صدر زرداری نے کوئی ذاتی بات نہیں کی بلکہ قومی مسائل کی بات کی، صدر زرداری نے کہا کہ مل کر مسائل کا حل تلاش کریں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کو تجویز دیتا ہوں کہ تاریخی معاشی بحران پر ملکر مسئلے کو حل کریں، پیپلز پارٹی سندھ حکومت نے صحت اور تعلیم کے شعبے میں معیاری کام کیا، کراچی سمیت تمام شہروں میں دل کےعلاج کے مفت اسپتال کھولے، سندھ کا ایک شہری علاج کےلیے خیبر پختونخوا کے ریڈنگ اسپتال نہیں جاتا، سندھ کا ایک شہری لاہور کے پی کے ایل آئی میں علاج کے لیے نہیں جاتا، ہمارے صوبے میں چاروں صوبوں سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں، پشاور میں بھی مفت اور معیاری علاج حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے۔
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ گھوسٹ اساتذہ کے مسئلے کے حل کےلیے بائیو میٹرک کا نظام لائے، سندھ میں اساتذہ کی ٹریننگ کا پروگرام شروع کیا ہے، اسکول پرائیویٹائز کرنے کے بجائے پبلک پرائیوٹی پارٹنر شپ کو اپنانا چاہیے، اسکول پرائیویٹ کریں گے تو وہ پرافٹ کے ادارے بنیں گے تعلیم کے ادارے نہیں۔
بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ صدر زرداری کا شکرگزار ہوں کہ آزاد کشمیر کے احتجاج پر نوٹس لیا، حکومت کا بھی شکرگزار ہوں کہ انھوں نے آزاد کشمیر کے جائز مطالبات مانے، اس وقت پورے ملک میں کسان سراپا احتجاج ہیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے منشور میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا گیا، کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو ملک کی معیشت کی شہ رگ کسان ہیں، نگراں حکومت کے دور میں گندم منگوانے کا احتساب ہونا چاہیے، پاکستانی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے گندم درآمد کی گئی، کسان کے ایشو پر ہم سب ایک ہیں، ایگریکلچر ایمرجنسی کے نام پر دس سال کیلئے پالیسی اعلان کریں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس کل تک ملتوی کردیا گیا۔